نہ وہ وعدۂ سر راہ ہے نہ وہ دوستی نہ نباہ ہے
نہ وہ وعدۂ سر راہ ہے نہ وہ دوستی نہ نباہ ہے
نہ وہ دل فریبی کے ہیں چلن نہ وہ پیاری پیاری نگاہ ہے
ترے ہجر میں مہ سیم بر کوئی غور سے جو کرے نظر
مری صبح شام سے ہے بتر مرا روز شب سے سیاہ ہے
ہے ہر ایک بات میں اب کجی کہ چلن نکالے ہیں اور ہی
نہ وہ ربط ہے نہ وہ دوستی نہ وہ رسم ہے نہ وہ راہ ہے
کوئی زہر غم پیے تا بہ کے ہوئی صرف ساغر غیر مے
نہ وہ جوشش سر شام ہے نہ وہ وعدۂ شب ماہ ہے
بنے کیونکے پھر مری اس کی اب کہ یہ تفرقہ ہے بڑا غضب
مجھے اس سے اچھے کی ہے طلب اسے مجھ سے اچھے کی چاہ ہے
کبھی سامنے سے جو وہ جائے ہے کبھی پھیر منہ کو دکھائے ہے
مجھے درد رشک ستائے ہے کہ یہی وہ غیرت ماہ ہے
تھی نگاہ پہلے تو اس کی ووں کہیں دوستی میں ہوا ہے یوں
دیا اس نے دل کہیں اور کیوں یہی مصحفیؔ کا گناہ ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |