نہ پردہ کھولیو اے عشق غم میں تو میرا
نہ پردہ کھولیو اے عشق غم میں تو میرا
کہیں نہ سامنے ان کے ہو زرد رو میرا
تم اپنی زلف سے پوچھو مری پریشانی
کہ حال اس کو ہے معلوم ہو بہو میرا
اگرچہ لاکھ رفو گر نے دل کیا بہتر
یہ جب بھی ہو نہ سکا زخم دل رفو میرا
فقط وہ اس لیے آتے ہیں جانب زنداں
کہ پھنس کے گھٹنے لگے طوق میں گلو میرا
نشانہ تیر نگہ کا بہ دل کروں عارفؔ
لڑائے آنکھ اگر مجھ سے جنگجو میرا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |