نہ پوچھ عشق کے صدمے اٹھائے ہیں کیا کیا

نہ پوچھ عشق کے صدمے اٹھائے ہیں کیا کیا
by غلام علی ہمدانی مصحفی
316125نہ پوچھ عشق کے صدمے اٹھائے ہیں کیا کیاغلام علی ہمدانی مصحفی

نہ پوچھ عشق کے صدمے اٹھائے ہیں کیا کیا
شب فراق میں ہم تلملائے ہیں کیا کیا

ذرا تو دیکھ تو صناع دست قدرت نے
طلسم خاک سے نقشے اٹھائے ہیں کیا کیا

میں اس کے حسن کے عالم کی کیا کروں تعریف
نہ پوچھ مجھ سے کہ عالم دکھائے ہیں کیا کیا

ذرا تو دیکھ تو گھر سے نکل کے اے بے مہر
کہ دیکھنے کو ترے لوگ آئے ہیں کیا کیا

کوئی پٹکتا ہے سر کوئی جان کھوتا ہے
ترے خرام نے فتنے اٹھائے ہیں کیا کیا

ذرا تو آن کے آب رواں کی سیر تو کر
ہماری چشم نے چشمے بہائے ہیں کیا کیا

نگاہ غور سے ٹک مصحفیؔ کی جانب دیکھ
جگر پہ اس نے ترے زخم کھائے ہیں کیا کیا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.