نہ پہنچے ہاتھ جس کا ضعف سے تا زیست دامن تک

نہ پہنچے ہاتھ جس کا ضعف سے تا زیست دامن تک
by قلق میرٹھی

نہ پہنچے ہاتھ جس کا ضعف سے تا زیست دامن تک
سراغ خوں اب اس کا مر کے جائے خاک گردن تک

سر و ساماں سے ہیں یہ بے سر و سامانیاں اپنی
کہ ہے جوش جنوں میرا گریباں گیر دامن تک

نہ کی غفلت سے قدر دل عبث الزام دل بر پر
متاع خفتہ کے جانے کے سو رستے ہیں رہزن تک

یہ حیلہ بھی نہیں کم موت کے آنے کو گر آئے
نہ آئے جو کہ بالیں پر وہ کیا جائے گا مدفن تک

کچھ ایسا اختلاط آپس سے اٹھا اس زمانے میں
نہ قاتل آئے ہے مجھ تک نہ جائے موت دشمن تک

مری محنت کا ضائع ہونا ہی تو اک قیامت ہے
کہ باد و برق آفت میں رہیں گے میرے خرمن تک

وفا کی نذر ہے میری ہی جان حسرت آلودہ
اثر کی قدر ہے میری ہی آہ قافلہ زن تک

غبار دل کسی ڈھب سے نہ قاتل کا ہوا ثابت
کہ صاف اس کی ہوا کی تیغ مجھ سے میرے کشتن تک

میں اپنے حوصلے سے اور وہ اپنے جامے سے باہر
نہ خنجر کا اسے کھٹکا نہ یاں صرفہ ہے گردن تک

نہیں ہوتا رفو چاک گریبان فنا ہرگز
منگائیں چرخ چارم سے اگر عیسیٰ کی سوزن تک

گراں جانی چمن میں بھی نشانہ ہو گئی آخر
کہ بار دوش گلبن ہے مری شاخ نشیمن تک

قلقؔ مرتا ہے اور ہوتا ہے ماتم کا یہ ہنگامہ
مگر رونا ہے اس کا تو نہ آیا بزم شیون تک

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse