نہ کام فکر سے نکلا نہ چل سکی تدبیر
نہ کام فکر سے نکلا نہ چل سکی تدبیر
کسی طرح سے نہ بدلی پھری ہوئی تقدیر
ضمیر دہر سے اندیشۂ خزاں نہ گیا
بہار میں بھی زمانہ ہے درد کی تصویر
تعینات میں الجھی ہوئی ہے فکر حیات
مرے زوال کی تمہید ہے مری تعمیر
اب اعتراف خطا پر نہ اس نگاہ سے دیکھ
کہ ہو نہ جائے کہیں مجھ سے پھر کوئی تقصیر
زبان عام میں کہتے ہیں کائنات جسے
حقیقت غم دل کی ہے مختصر تفسیر
نہیں خدا کی زمیں تنگ اے چمن والو
کریں گے اور کہیں ہم اب آشیاں تعمیر
زمانہ ہوشؔ بدلنے کو ہے نئی کروٹ
بجھے پڑے ہیں بہت دن سے قلب و روح و ضمیر
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |