نہ کیوں کر نذر دل ہوتا نہ کیوں کر دم مرا جاتا

نہ کیوں کر نذر دل ہوتا نہ کیوں کر دم مرا جاتا
by بیخود دہلوی

نہ کیوں کر نذر دل ہوتا نہ کیوں کر دم مرا جاتا
اکیلا بھیجتا اس کو وہ خالی ہاتھ کیا جاتا

جنازہ پر بھی وہ آتے تو منہ کو ڈھانک کر آتے
ہماری جان لے کر بھی نہ انداز حیا جاتا

تمہاری یاد میرا دل یہ دونوں چلتے پرزے ہیں
جو ان میں سے کوئی مٹتا مجھے پہلے مٹا جاتا

تیری چتون کے بل کو ہم نے قاتل تاک رکھا تھا
کدھر مقتل میں بچ کر ہم سے یہ تیر قضا جاتا

مزا جب تھا قیامت تک نہ آتا ہوش بیخودؔ کو
پلائی تھی جو مے ساقی نے اتنی تو پلا جاتا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse