نہ ہوئی ہم سے شب بسر نہ ہوئی

نہ ہوئی ہم سے شب بسر نہ ہوئی
by عزیز لکھنوی

نہ ہوئی ہم سے شب بسر نہ ہوئی
کس سے پوچھیں کہ کیوں سحر نہ ہوئی

وہ نظر شوخ و فتنہ زا ہی سہی
کیوں مرے حال زار پر نہ ہوئی

بزم میں یہ ادا ہمیں سمجھے
سب کو دیکھا ادھر نظر نہ ہوئی

اے مرا حال پوچھنے والے
تجھ کو اب تک مری خبر نہ ہوئی

ہم اسی زندگی پہ مرتے ہیں
جو یہاں چین سے بسر نہ ہوئی

کیسے کیسے ستم ہوئے تجھ پر
کیوں مرے دل تجھے خبر نہ ہوئی

روح عالم میں پھونک دی تو کیا
میری جانب تو اک نظر نہ ہوئی

اف مرے غم کدے کی تاریکی
آپ آئے بھی تو سحر نہ ہوئی

دل نے دنیا نئی بنا ڈالی
اور ہمیں آج تک خبر نہ ہوئی

مجھ سے رخصت ہوئی تھی جب دنیا
تم کہاں تھے تمہیں خبر نہ ہوئی

ہجر کی رات کاٹنے والے
کیا کرے گا اگر سحر نہ ہوئی

خوش رہیں وہ یہ مدعا تھا عزیزؔ
نہ ہوئی زندگی بسر نہ ہوئی

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse