نہ ہو آرزو کچھ یہی آرزو ہے

نہ ہو آرزو کچھ یہی آرزو ہے
by قلق میرٹھی
316864نہ ہو آرزو کچھ یہی آرزو ہےقلق میرٹھی

نہ ہو آرزو کچھ یہی آرزو ہے
فقط میں ہی میں ہوں تو پھر تو ہی تو ہے

نہ یہ ہے نہ وہ ہے نہ میں ہوں نہ تو ہے
ہزاروں تصور اور اک آرزو ہے

نہ امید جھوٹی نہ کچھ یاس سچی
نہیں جو کہیں بھی وہی چار سو ہے

کسے ڈھونڈھتے ہیں یہی ڈھونڈھتے ہیں
یہی جستجو ہے اگر جستجو ہے

جگائے گا کس طرح شور قیامت
خموشی سے ناچار ہر گفتگو ہے

خودی بھی ہماری خدائی سہی
وہی ہم نشیں ہے وہی دو بہ دو ہے

مگر دشنہ تھا سایۂ زلف ساقی
کہ جو زخم ہے ساغر مشک بو ہے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.