نہ ہو شباب تو کیفیت شراب کہاں

نہ ہو شباب تو کیفیت شراب کہاں
by مرزا مائل دہلوی

نہ ہو شباب تو کیفیت شراب کہاں
نہ ہو شباب تو کیفیت شباب کہاں

چلا ہوں کعبے کو لیکن چلا نہیں جاتا
نہ ہو جو شوق ہی دل میں تو اضطراب کہاں

عدو کی بزم میں دشمن ہزار بیٹھے ہیں
ملا بھی ہائے وہ کافر تو بے حجاب کہاں

کسی طرح شب غم کی سحر نہیں ہوتی
خدا ہی جانے کہ ڈوبا ہے آفتاب کہاں

حرم میں بیٹھے ہو مائلؔ خدا خدا کیجے
یہاں وہ ساقئ مہوش کہاں شراب کہاں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse