نہ یہ شیشہ نہ یہ ساغر نہ یہ پیمانہ بنے
نہ یہ شیشہ نہ یہ ساغر نہ یہ پیمانہ بنے
جان مے خانہ تری نرگس مستانہ بنے
پرتو رخ کے کرشمے تھے سر راہ گزر
ذرے جو خاک سے اٹھے وہ صنم خانہ بنے
کار فرما ہے فقط حسن کا نیرنگ کمال
چاہے وہ شمع بنے چاہے وہ پروانہ بنے
اس کو مطلوب ہیں کچھ قلب و جگر کے ٹکڑے
جیب و دامن نہ کوئی پھاڑ کے دیوانہ بنے
رند جو ظرف اٹھا لیں وہی ساغر بن جائے
جس جگہ بیٹھ کے پی لیں وہی مے خانہ بنے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |