نیند آتی نہیں کم بخت دوانی آ جا
نیند آتی نہیں کم بخت دوانی آ جا
اپنی بیتی کوئی کہہ آج کہانی آ جا
ہاتھ پر تیرے موئے کس کے ہے چھلے کا داغ
دی ہے یہ کس نے تجھے اپنی نشانی آ جا
جب وہ روٹھا تھا تبھی تو نے ملا مجھ سے دیا
میں نے کچھ قدر تری ہائے نہ جانی آ جا
سبز رنگ اب کے ہے نو روز کا اس سر کی قسم
جوڑا لا کر تو پنہاوے مجھے دھانی آ جا
بال ماتھے کے جو ڈورے سے سیئے ہیں تو نے
شکل لگتی ہے تری آج ڈرانی آ جا
غم ہے رنگیںؔ کو نہ میرا یوں ہی اس کے پیچھے
مفت برباد ہوئی میری جوانی آ جا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |