نے بت ہے نہ سجدہ ہے نے بادہ نہ مستی ہے

نے بت ہے نہ سجدہ ہے نے بادہ نہ مستی ہے
by غلام علی ہمدانی مصحفی

نے بت ہے نہ سجدہ ہے نے بادہ نہ مستی ہے
یاں شعر پرستی ہے یا حسن پرستی ہے

ساعد سے ترے شعلے یوں حسن کے اٹھتے ہیں
ہاتھوں میں ترے گویا مہتابئ دستی ہے

بیماریٔ سل سے کم سمجھو نہ غم الفت
یہ سل مرے سینے سے اب کوئی اکستی ہے

معمورۂ دل اپنا ویران رہا برسوں
وہ کون سی بستی ہے کیا جانے جو بستی ہے

مسی کی دھڑی اس کی نظروں سے جو ہے غائب
یارب وہ سیہ بدلی کیدھر کو برستی ہے

بلبل کو قفس سے کب صیاد تو چھوڑے گا
نظارۂ گل کو یہ ہر سال ترستی ہے

سر دے کے بھی ہاتھ آوے گر تیغ خم ابرو
اے مصحفیؔ ہم تو بھی سمجھیں ہیں کہ سستی ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse