نے بت ہے نہ سجدہ ہے نے بادہ نہ مستی ہے

نے بت ہے نہ سجدہ ہے نے بادہ نہ مستی ہے
by غلام علی ہمدانی مصحفی
316352نے بت ہے نہ سجدہ ہے نے بادہ نہ مستی ہےغلام علی ہمدانی مصحفی

نے بت ہے نہ سجدہ ہے نے بادہ نہ مستی ہے
یاں شعر پرستی ہے یا حسن پرستی ہے

ساعد سے ترے شعلے یوں حسن کے اٹھتے ہیں
ہاتھوں میں ترے گویا مہتابئ دستی ہے

بیماریٔ سل سے کم سمجھو نہ غم الفت
یہ سل مرے سینے سے اب کوئی اکستی ہے

معمورۂ دل اپنا ویران رہا برسوں
وہ کون سی بستی ہے کیا جانے جو بستی ہے

مسی کی دھڑی اس کی نظروں سے جو ہے غائب
یارب وہ سیہ بدلی کیدھر کو برستی ہے

بلبل کو قفس سے کب صیاد تو چھوڑے گا
نظارۂ گل کو یہ ہر سال ترستی ہے

سر دے کے بھی ہاتھ آوے گر تیغ خم ابرو
اے مصحفیؔ ہم تو بھی سمجھیں ہیں کہ سستی ہے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.