وائے نادانی یہ حسرت تھی کہ ہوتا در کھلا

وائے نادانی یہ حسرت تھی کہ ہوتا در کھلا
by فانی بدایونی
299768وائے نادانی یہ حسرت تھی کہ ہوتا در کھلافانی بدایونی

وائے نادانی یہ حسرت تھی کہ ہوتا در کھلا
ہم قفس راز اسیری کیا کہیں کیونکر کھلا

فرصت رنج اسیری دی نہ ان دھڑکوں نے ہائے
اب چھری صیاد نے لی اب قفس کا در کھلا

اللہ اللہ اک دعائے مرگ کے دو دو اثر
واں کھلا باب اجابت یاں قفس کا در کھلا

اف اس آزادئ بے ہنگام کی مجبوریاں
میں قفس کے پاس یوں بیٹھا ہی رہتا پر کھلا

عجلت پرواز جب ملنے بھی دے راہ گریز
یوں تو کھلنے کو قفس کا در کھلا اکثر کھلا

بند ہے باب قفس ہو سر تو پٹکے جائیے
ہم نے دیکھا ہے قفس کی تیلیوں میں در کھلا

کم تو کیا صیاد بے تابی سوا ہو جائے گی
تو نے ناحق تیلیوں میں رکھ دیا خنجر کھلا

آسماں گرم تلافی چاہیئے کیسا قفس
بجلیوں کے اک اشارے میں قفس کا در کھلا

لکھ چکے ہم جا چکا خط گر یہی حالت رہی
ہاتھ میں آیا قلم اور شوق کا دفتر کھلا

دل میں زخم اشکوں میں خوں صورت ببیں عالم مپرس
وہ نگہ اف وہ مژہ ناوک چھپا نشتر کھلا

دم بخود سکتے کا عالم مردنی چھائی ہوئی
رنگ میری زندگی کا میری میت پر کھلا

دل میں تیرا دھیان اک مدت رہا بیگانہ وار
کھلتے ہی کھلتے کھلا اور کیا ہی شرما کر کھلا

دیکھیے کیا گل کھلاتی ہے بہار اب کے برس
خواب میں فانیؔ نے دیکھا ہے قفس کا در کھلا


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.