واعظ ملے گی خلد میں کب اس قدر شراب

واعظ ملے گی خلد میں کب اس قدر شراب
by قربان علی سالک بیگ

واعظ ملے گی خلد میں کب اس قدر شراب
پانی کے بدلے پیتے ہیں اے بے خبر شراب

آمد میں اس کی مست ہوئے کچھ خبر نہیں
ساقی ہے کون جام کہاں اور کدھر شراب

اس قلزم گناہ میں ڈوبا ہوا ہوں میں
جس میں ہے ایک موجۂ دامان تر شراب

مستی میں ان کو لگ گئی لو اور غیر کی
دینی شب وصال نہ تھی اس قدر شراب

اقرار وصل اور وہ مست غرور ناز
آیا ہے پی کے تو کہیں اے نامہ بر شراب

میں ایک بار آنکھ چرا کر جو پی گیا
لایا نہ زخم دھونے کو پھر چارہ گر شراب

کرنا تھا مجھ کو حیلہ شکست خمار کا
دینی تھی خوب قبل طلوع سحر شراب

رخصت کا ہوش ان کو نہ رہتا شب وصال
کچھ بولتے تو یہ کہ دھری ہے کدھر شراب

سالکؔ ملے جو بزم میں اس کی تو لطف ہے
ورنہ پیا ہی کرتے ہیں ہم اپنے گھر شراب

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse