واعظ پئے ہوئے ہوں خدا کے لئے نہ چھیڑ
واعظ پئے ہوئے ہوں خدا کے لئے نہ چھیڑ
دھڑکا مٹا ہوا ہے عذاب و ثواب کا
یارب انہیں بہشت میں جانا نہ ہو نصیب
جو لطف اٹھا چکے ہیں شب ماہتاب کا
کیا کیا بگڑ رہے ہیں وہ بن بن کے بزم میں
آشوب روزگار ہے عالم عتاب کا
پھر چاہتا ہے دل کہ وہی تاک جھانک ہو
پھڑ ڈھونڈھتا ہوں لطف سوال و جواب کا
زاہد کو بادہ خواری کا چسکا لگا دیا
یہ کام عمر بھر میں ہوا ہے ثواب کا
شوخی تو یہ ہے بزم میں بیٹھے ہیں اس طرح
گویا کھنچا ہوا ہے مرقع حجاب کا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |