واقف ہیں ہم کہ حضرت غم ایسے شخص ہیں
واقف ہیں ہم کہ حضرت غم ایسے شخص ہیں
اور پھر ہم ان کے یار ہیں ہم ایسے شخص ہیں
دیوانے تیرے دشت میں رکھیں گے جب قدم
مجنوں بھی لے گا ان کے قدم ایسے شخص ہیں
جن پہ ہوں ایسے ظلم و ستم ہم نہیں وہ لوگ
ہوں روز بلکہ لطف و کرم ایسے شخص ہیں
یوں تو بہت ہیں اور بھی خوبان دل فریب
پر جیسے پرفن آپ ہیں کم ایسے شخص ہیں
کیا کیا جفا کشوں پہ ہیں ان دلبروں کے ظلم
ایسوں کے سہتے ایسے ستم ایسے شخص ہیں
دیں کیا ہے بلکہ دیجئے ایمان بھی انہیں
زاہد یہ بت خدا کی قسم ایسے شخص ہیں
آزردہ ہوں عدو کے جو کہنے پہ اے ظفرؔ
نے ایسے شخص وہ ہیں نہ ہم ایسے شخص ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |