واں تو ملنے کا ارادہ ہی نہیں
واں تو ملنے کا ارادہ ہی نہیں
یاں وہ خواہش ہے کہ ہوتا ہی نہیں
یوں ستانے کے تو لائق تھے نہ ہم
آپ نے کچھ ہمیں سمجھا ہی نہیں
جس سے تسکیں ہو مری اے قاصد
ایسی تو بات تو کہتا ہی نہیں
اور بھی ایسی تو باتیں ہیں بہت
گلۂ رنجش بے جا ہی نہیں
لے گئیں نیچی نگاہیں دل کو
آنکھ اٹھا کر ابھی دیکھا ہی نہیں
رشک دشمن سے نصیحت ہوئی آپ
دل وہاں جانے کو ہوتا ہی نہیں
اور جو ظلم ہو منظور مجھے
غیر سے ربط گوارا ہی نہیں
یاں تو یہ منتظر وعدہ ہم
اور واں یاد وہ وعدا ہی نہیں
ربط دشمن سے ہے انکار عبث
ہمیں اس بات کا شکوا ہی نہیں
ہم خدا سے بھی نہیں مانگتے کچھ
یاں کوئی اپنی تمنا ہی نہیں
نہ سہی کوئی برائی نہ سہی
تم سے ملنا مجھے اچھا ہی نہیں
اس کی ہر بات کو سچ سمجھے نظامؔ
اس سا عیار تو پیدا ہی نہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |