واں نقاب اٹھی کہ صبح حشر کا منظر کھلا
واں نقاب اٹھی کہ صبح حشر کا منظر کھلا
یا کسی کے حسن عالم تاب کا دفتر کھلا
غیب سے پچھلے پہر آتی ہے کانوں میں صدا
اٹھو اٹھو رحمت رب علا کا در کھلا
آنکھ جھپکی تھی تصور بندھ چکا تھا یار کا
چونکتے ہی حسرت دیدار کا دفتر کھلا
کوئے جاناں کا سماں آنکھوں کے آگے پھر گیا
صبح جنت کا جو اپنے سامنے منظر کھلا
رنگ بدلا پھر ہوا کا مے کشوں کے دن پھرے
پھر چلی باد صبا پھر مے کدے کا در کھلا
آ رہی ہے صاف بوئے سنبل باغ جناں
گیسوئے محبوب شاید میری میت پر کھلا
چار دیوار عناصر پھاند کر پہنچے کہاں
آج اپنا زور وحشت عرش اعظم پر کھلا
چپ لگی مجھ کو گناہ عشق ثابت ہو گیا
رنگ چہرے کا اڑا راز دل مضطر کھلا
اشک خوں سے زرد چہرے پر ہے کیا طرفہ بہار
دیکھیے رنگ جنوں کیسا مرے منہ پر کھلا
خنجر قاتل سے جنت کی ہوا آنے لگی
اور بہار زخم سے فردوس کا منظر کھلا
نیم جاں چھوڑا تری تلوار نے اچھا کیا
ایڑیاں بسمل نے رگڑیں صبر کا جوہر کھلا
صحبت واعظ میں بھی انگڑائیاں آنے لگیں
راز اپنی مے کشی کا کیا کہیں کیونکر کھلا
ہاتھ الجھا ہے گریباں میں تو گھبراؤ نہ یاسؔ
بیڑیاں کیونکر کٹیں زنداں کا در کیونکر کھلا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |