واہ کس رنگ پہ ہے رنگ بہار عارض
واہ کس رنگ پہ ہے رنگ بہار عارض
باغ فردوس کا ہر پھول نثار عارض
لیلۃ القدر ہے اے ماہ ترا خط سیاہ
صبح یوم العرفہ نور دیار عارض
سحر عید کا آئینہ سواد اس کا ہے
ہے چمکتی ہوئی اقلیم دیار عارض
ہے نظر خیرہ یہ ہے خط سیہ کا جلوہ
دن سے بڑھ کر ہے فروغ شب تار عارض
ہو چلا بارور اب نخل جوانی ان کا
چشم بد دور ہے آغاز بہار عارض
مہر سے بڑھ کے ہے ذرہ کی چمک اس رخ پر
فلک العرش ہے یا ہے یہ غبار عارض
حوریں مشاطہ ہیں ہر ہفت کی خدمت ہے انہیں
ماہ آئینہ ہے مہر آئینہ دار عارض
نور رخ سبزیٔ خط پیش نظر ہیں دونوں
میری آنکھوں میں ہے یہ لیل و نہار عارض
اے گل اندام ترے حسن کی رنگت ہے کچھ اور
پھول بھی صدقے ہیں بلبل بھی نثار عارض
آئنہ سامنے ہے محو تماشا ہیں وہ
دیکھتے ہیں مری آنکھوں سے بہار عارض
زلفیں رخ پر ترے بل کرتی ہیں زیبا ہے انہیں
ان کی جاگیر میں لکھا ہے دیار عارض
رنگ ہلکا سا گلابی ہے پھر اس پر خط سبز
قابل دید ہے اکبرؔ یہ بہار عارض
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |