وحشت تھی ہم تھے سایۂ دیوار یار تھا
وحشت تھی ہم تھے سایۂ دیوار یار تھا
یا یہ کہو کہ سر پہ کوئی جن سوار تھا
بگڑا چمن میں کل ترے وحشی کا جب مزاج
جھونکا نسیم کا بھی اسے ناگوار تھا
لالے کا داغ دیکھ کے چتون بدل گئی
تیور سے صاف راز جنوں آشکار تھا
پہلے تو آنکھیں پھاڑ کے دیکھا ادھرادھر
دامن پھر اک اشارے میں بس تار تار تھا
اللہ رے توڑ نیچی نگاہوں کے تیر کا
اف بھی نہ کرنے پائے تھے اور دل کے پار تھا
نیرنگ حسن و عشق کی وہ آخری بہار
تربت تھی میری اور کوئی اشک بار تھا
جھک جھک کے دیکھتا ہے فلک آج تک اسے
جس سرزمیں پہ میرا نشان مزار تھا
ساحل کے پاس یاسؔ نے ہمت بھی ہار دی
کچھ ہاتھ پاؤں مارتا ظالم تو پار تھا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |