وحشت دل نے کہیں کا بھی نہ رکھا مجھ کو
وحشت دل نے کہیں کا بھی نہ رکھا مجھ کو
دیکھنا ہے ابھی کیا کہتی ہے دنیا مجھ کو
اثر قید تعین سے بھی آزاد ہے دل
کس طرح بند علایق ہو گوارا مجھ کو
لینے بھی دے ابھی موج لب ساحل کے مزے
کیوں ڈبوتی ہے ابھرنے کی تمنا مجھ کو
خواہش دل تھی کہ ملتا کہیں سودائے جنوں
میں نے کیا مانگا تھا قسمت نے دیا کیا مجھ کو
تیری بے پردگیٔ حسن نے آنکھیں کھولیں
تنگ دامانیٔ نظارہ تھی پردا مجھ کو
آخری دور میں مدہوش ہوا تھا لیکن
لغزش پا نے مری خوب سنبھالا مجھ کو
عمر ساری تو کٹی دیر و حرم میں اے شوقؔ
اس پہ سجدہ بھی تو کرنا نہیں آیا مجھ کو
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |