وحشت میں بھی رخ جانب صحرا نہ کریں گے

وحشت میں بھی رخ جانب صحرا نہ کریں گے
by مرزارضا برق

وحشت میں بھی رخ جانب صحرا نہ کریں گے
جب تک کہ تمہیں شہر میں رسوا نہ کریں گے

گھبرا گئے بیتابی دل دیکھ کے اے جان
ٹھہرو تو ابھی ہجر میں کیا کیا نہ کریں گے

مر جاؤں تو مر جاؤں برا مانیں تو مانیں
پھر کیسے مسیحا ہیں جو اچھا نہ کریں گے

وہ حسن میں کامل ہیں تو ہم صبر میں یکتا
تا عمر کبھی ذکر بھی ان کا نہ کریں گے

چھپ چھپ کے کہیں گے جو چھپانے کے سخن ہیں
ہم تم سے کسی بات کا پردا نہ کریں گے

بدنامی سے ڈرتے ہو عبث عشق میں اے برقؔ
کب تک بشر اس بات کا چرچا نہ کریں گے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse