وحشت ہے میرے دل کو تو تدبیر وصل کر

وحشت ہے میرے دل کو تو تدبیر وصل کر
by غلام علی ہمدانی مصحفی

وحشت ہے میرے دل کو تو تدبیر وصل کر
پانو میں اس غزال کے زنجیر وصل کر

زخمی شکار ہوں میں ترا مر ہی جاؤں گا
پہلو سے مت جدا تو مرے تیر وصل کر

اک لحظہ تیری باتوں سے آتا ہے دل کو چین
ہم دم خدا کے واسطے تقریر وصل کر

دست دراز اپنے کو طوق گلو مرا
تو ایک دم تو اے خم شمشیر وصل کر

اے مہ یہ تیری دور کشی کب تلک بھلا
اک شب تو تو ارادۂ شب گیر وصل کر

سینہ پہ سینہ خشت پہ گویا کہ خشت ہے
اب اے فلک نظارۂ تعمیر وصل کر

تہمت لگے گی پاس بٹھانے سے فائدہ
ناحق نہ مجھ کو مورد تقصیر وصل کر

مت چاندنی میں آ کہ زمانہ غیور ہے
اس کام کو سپرد شب قیر وصل کر

شاید کہ پڑھ کے نرم ہو دل اس کا مصحفیؔ
جا کر حوالے اس کے یہ تحریر وصل کر

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse