وسعتیں محدود ہیں ادراک انساں کے لئے
وسعتیں محدود ہیں ادراک انساں کے لئے
ورنہ ہر ذرہ ہے دنیا چشم عرفاں کے لئے
اے خزاں تو شوق کے سارا چمن برباد کر
چند پھانسیں چھوڑ جا میری رگ جاں کے لئے
دور پہونچیں شہرتیں رفتار سحر آثار کی
کھل گئے رستے ترے حسن خراماں کے لئے
پھول گلشن کے نہیں تو خاک صحرا ہی سہی
کچھ نہ کچھ تو چاہئے تسکین داماں کے لئے
اس لئے دیتا دل تم کو کہ لو اور بھول جاؤ
میں نے اک تصویر دی ہے طاق نسیاں کے لئے
دھجیاں اڑنے کو اے سیمابؔ وسعت چاہئے
ہے کوئی میدان آشوب گریباں کے لئے
This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator. |