وصل میں رفتار معشوقانہ دکھلاتی ہے نیند

وصل میں رفتار معشوقانہ دکھلاتی ہے نیند
by خواجہ محمد وزیر

وصل میں رفتار معشوقانہ دکھلاتی ہے نیند
آج کن اٹکھیلیوں سے آنکھوں میں آتی ہے نیند

یاد چشم سرمگیں میں شب کو گر آتی ہے نیند
صورت مرغ نگہ آنکھوں سے اڑ جاتی ہے نیند

فرقت دل دار میں سہواً اگر آتی ہے نیند
آنکھ سے باہر ہی باہر آ کے پھر جاتی ہے نیند

عین بے ہوشی ہے ہشیاری نہ سمجھا چاہئے
اہل غفلت کی تو بیداری بھی کہلاتی ہے نیند

کروٹیں لے لے کے کہتے ہیں شب فرقت میں ہم
کس طرح اے خفتگان خاک آ جاتی ہے نیند

ان کی فرقت میں نہ پوچھو سرگزشت خواب چشم
آج کل پائے نگہ کی ٹھوکریں کھاتی ہے نیند

سبزۂ خوابیدہ گلشن کا جب آتا ہے ذکر
تب قفس میں کوئی دم بلبل کو آ جاتی ہے نیند

فرقت دل دار میں سونے کو مرنا کہتے ہیں
عاشقوں میں خواب مرگ ایسے ہی کہلاتی ہے نیند

نیند کو بھی نیند آ جاتی ہے ہجر یار میں
چھوڑ کر بے خواب مجھ کو آپ سو جاتی ہے نیند

کہتے ہیں سونا اسے چونکا نہ روز حشر تک
اس ہماری بخت خفتہ کی قسم کھاتی ہے نیند

کیا غلط سمجھے وہ آئے گا پھڑکتی ہے جو آنکھ
آنکھ میں خوف شب فرقت سے تھراتی ہے نیند

فرقت دل دار میں جو رات بھر آئی نہ تھی
وصل میں آتی ہوئی آنکھوں شرماتی ہے نیند

منتظر رکھتی ہے غمزے کرتی ہے آتی نہیں
او بت ترسا تری فرقت میں ترساتی ہے نیند

کوئے جاناں سے جو اٹھتا ہوں تو سو جاتے ہیں پاؤں
دفعتاً آنکھوں سے پاؤں میں اتر آتی ہے نیند

گرمیٔ سوز جگر بیتاب کر دیتی ہے جب
ٹھنڈی سانسیں ایسی بھرتا ہوں کہ آ جاتی ہے نیند

تیغ کا پھل کھایا آب تیغ پی کر سو رہے
کثرت آب و غذا سے واقعی آتی ہے نیند

صورت زاہد نہ جاگو حضرت دل سو رہو
قبلۂ من کعبۂ مقصود دکھلاتی ہے نیند

اس مری دیوانگی پر اے جنوں پتھر پڑیں
آنکھ کے ڈھیلے لگاتا ہوں اگر آتی ہے نیند

واہ رے تاثیر الفت بل بے فرط اتحاد
غش پہ غش آتے ہیں مجھ کو جب انہیں آتی ہے نیند

سوتے ہو تو چشم بددور آنکھیں رہتی ہیں کھلی
فتنۂ بیدار کیا ایسے ہی کہلاتی ہے نیند

ہجر میں سونے کی ایسی ہی تمنا اے وزیرؔ
دیکھتا ہوں اس کو حسرت سے جسے آتی ہی نیند

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse