وصل کی امید بڑھتے بڑھتے تھک کر رہ گئی

وصل کی امید بڑھتے بڑھتے تھک کر رہ گئی
by ثاقب لکھنوی

وصل کی امید بڑھتے بڑھتے تھک کر رہ گئی
صبح کاذب اور کیا کرتی چمک کر رہ گئی

دل شب غم کاٹ لایا دم ہوا لیکن ہوا
اک کلی تھی جو سحر ہوتے مہک کر رہ گئی

نا شناس روئے خوش حالی ہے طبع غم نصیب
جب مسرت سامنے آئی جھجک کر رہ گئی

مجھ کو جلنے دے ابھی اے موت کیوں دنیا کہے
آگ کیسی تھی جو سینے میں بھڑک کر رہ گئی

کوئی کیا دیکھے بہار روئے قاتل بعد ذبح
کیوں کھلے وہ آنکھ جو حسرت سے تک کر رہ گئی

میرے دل کے زخم اور ان کی شماتت دیکھیے
ہنس دیئے کشت تمنا جب لہک کر رہ گئی

کیا تمنا تھی یہ بیتابی جسے رکنا پڑا
تنگ تھا صحن قفس بلبل پھڑک کر رہ گئی

لوگ کہتے ہیں کھلا تھا رات بھر باب قبول
کس طرف میری دعا ثاقبؔ بھٹک کر رہ گئی

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse