وصل کے دن کا اشارہ ہے کہ ڈھل جاؤں گا
وصل کے دن کا اشارہ ہے کہ ڈھل جاؤں گا
دل یہ کہتا ہے کہ قابو سے نکل جاؤں گا
آتش عشق بڑھی جاتی ہے بیٹھو دم بھر
گرم رفتار رہو گے تو میں جل جاؤں گا
انتظار آپ کا ایسا ہے کہ دم کہتا ہے
نگہ شوق ہوں آنکھوں سے نکل جاؤں گا
دل سے کہتا ہے شب وصل یہی شوق وصال
میں وہ ارمان نہیں ہوں کہ نکل جاؤں گا
سیکڑوں زخم لگیں گے نہ ہٹوں گا قاتل
شجر باغ محبت ہوں میں پھل جاؤں گا
عہد طفلی سے یہ کہتا تھا مزاج جاناں
دیکھ لینا کہ جوانی میں بدل جاؤں گا
طفل اشک آنکھ تک آتا ہے یہ کہتا ہے رشیدؔ
مجھ کو مردم نے جو روکا تو مچل جاؤں گا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |