وطن کا راگ

وطن کا راگ
by برج نرائن چکبست
301964وطن کا راگبرج نرائن چکبست

زمین ہند کی رتبہ میں عرش اعلیٰ ہے
یہ ہوم رول کی امید کا اجالا ہے

مسز بسنٹ نے اس آرزو کو پالا ہے
فقیر قوم کے ہیں اور یہ راگ مالا ہے

طلب فضول ہے کانٹے کی پھول کے بدلے
نہ لیں بہشت بھی ہم ہوم رول کے بدلے

وطن پرست شہیدوں کی خاک لائیں گے
ہم اپنی آنکھ کا سرمہ اسے بنائیں گے

غریب ماں کے لئے درد دکھ اٹھائیں گے
یہی پیام وفا قوم کو سنائیں گے

طلب فضول ہے کانٹے کی پھول کے بدلے
نہ لیں بہشت بھی ہم ہوم رول کے بدلے

ہمارے واسطے زنجیر و طوق گہنا ہے
وفا کے شوق میں گاندھی نے جس کو پہنا ہے

سمجھ لیا کہ ہمیں رنج و درد سہنا ہے
مگر زباں سے کہیں گے وہی جو کہنا ہے

طلب فضول ہے کانٹے کی پھول کے بدلے
نہ لیں بہشت بھی ہم ہوم رول کے بدلے

پہنانے والے اگر بیڑیاں پنہائیں گے
خوشی سے قید کے گوشہ کو ہم بسائیں گے

جو سنتری در زنداں کے بھی سو جائیں گے
یہ راگ گا کے انہیں نیند سے جگائیں گے

طلب فضول ہے کانٹے کی پھول کے بدلے
نہ لیں بہشت بھی ہم ہوم رول کے بدلے

زباں کو بند کیا ہے یہ غافلوں کو ہے ناز
ذرا رگوں میں لہو کا بھی دیکھ لیں انداز

رہے گا جان کے ہمراہ دل کا سوز و گداز
چتا سے آئے گی مرنے کے بعد یہ آواز

طلب فضول ہے کانٹے کی پھول کے بدلے
نہ لیں بہشت بھی ہم ہوم رول کے بدلے

یہی دعا ہے وطن کے شکستہ حالوں کی
یہی امنگ جوانی کے نونہالوں کی

جو رہنما ہے محبت پہ مٹنے والوں کی
ہمیں قسم ہے اسی کے سپید بالوں کی

طلب فضول ہے کانٹے کی پھول کے بدلے
نہ لیں بہشت بھی ہم ہوم رول کے بدلے

یہی پیام ہے کوئل کا باغ کے اندر
اسی ہوا میں ہے گنگا کا زور آٹھ پہر

ہلال عید نے دی ہے یہی دلوں کو خبر
پکارتا ہے ہمالہ سے ابر اٹھ اٹھ کر

طلب فضول ہے کانٹے کی پھول کے بدلے
نہ لیں بہشت بھی ہم ہوم رول کے بدلے

بسے ہوئے ہیں محبت سے جن کی قوم کے گھر
وطن کا پاس ہے ان کو سہاگ سے بڑھ کر

جو شیر خار ہیں ہندوستاں کے لخت جگر
یہ ماں کے دودھ سے لکھا ہے ان کے سینے پر

طلب فضول ہے کانٹے کی پھول کے بدلے
نہ لیں بہشت بھی ہم ہوم رول کے بدلے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse