وعدوں ہی پہ ہر روز مری جان نہ ٹالو
وعدوں ہی پہ ہر روز مری جان نہ ٹالو
ہے عید کا دن اب تو گلے ہم کو لگا لو
ہر وقت میاں خوب نہیں گالیاں دینی
کیا بکتے ہو تم یاوہ زباں اپنی سنبھالو
پہنچے کو چھڑاؤ گے بڑے مرد ہو ایسے
تم پہلے مرے ہاتھ سے دامن تو چھڑا لو
دیوانے کا ہے تیرے یہ عالم کہ پری بھی
دیکھ اس کو یہ کہتی ہے کوئی اس کو بلا لو
اس شوخ کی آنکھوں کے جو جاتا ہوں مقابل
کہتی ہیں نگاہیں کہ اسے مار ہی ڈالو
یوں پھرتے ہو مقتل پہ شہیدان وفا کے
دامن تو ذرا ہاتھ میں تم اپنے اٹھا لو
جاں ڈالتا ہے مصحفیؔ قالب میں سخن کے
مشکل ہے کہ تم اس کی طرح شعر تو ڈھالو
گو زمزمۂ دہلی و کو لہجۂ پورب
کیوں اس کی طرف ہوتے ہو ناحق کو رزالو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |