وفا میں برابر جسے تول لیں گے
وفا میں برابر جسے تول لیں گے
اسے سلطنت بیچ کر مول لیں گے
اجازت اگر سر پٹکنے کی ہوگی
مقفل در یار ہم کھول لیں گے
طبیبو نہ بخشے کی صحت ٹھنڈ آئے
نہ جب تک کہ زہر اس میں ہم گھول لیں گے
کسی دن جو پلٹا مقدر ہمارا
بکے جس کے ہاتھوں اسے مول لیں گے
گلوں سے نہ ہوگی جو عقدہ کشائی
گرہ دل کے کانٹے سے ہم کھول لیں گے
ہمیں باغ جانے سے یہ مدعا ہے
ذرا بلبل و گل سے ہنس بول لیں گے
رہائی نہ دیں گے وہ قید ستم سے
نہ جب تک میری جان کو اول لیں گے
بدن کیوں چھپاتے ہو زیور پہن کر
جواہر کے اکے نہ ہم کھول لیں گے
ابھی ہم سے اور ان سے صحبت نئی ہے
جو منہ لگ چلیں گے تو ہنس بول لیں گے
غم یار بھی ابر نیساں ہے اے بحرؔ
جو ٹپکیں گے آنسو گہر رول لیں گے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |