وفا کے ہیں خوان پر نوالے ز آب اول دوم بہ آتش

وفا کے ہیں خوان پر نوالے ز آب اول دوم بہ آتش
by حسرتؔ عظیم آبادی
302848وفا کے ہیں خوان پر نوالے ز آب اول دوم بہ آتشحسرتؔ عظیم آبادی

وفا کے ہیں خوان پر نوالے ز آب اول دوم بہ آتش
بھرے ہے ساقی یہاں پیالے ز آب اول دوم بہ آتش

چمن میں جوش جنوں کے ہیں اشک اور داغ دروں سے اپنے
کروں شگفتہ گل اور لالے ز آب اول دوم بہ آتش

ہمارے اشک اور آہ کی موجیں باندھ دیتی ہیں سب جو دوری
بنے ہیں ماہ فلک پہ ہالے ز آب اول دوم بہ آتش

جہاں کے سب گرم و سرد دیکھے نہ ذوق ہے ان میں کچھ نہ لذت
دو روز چھاتی یہاں پکالے ز آب اول دوم بہ آتش

دو حکم ہیں شاہ عشق کے ان میں ایک گلنا ہے ایک جلنا
ہیں دفتر درد میں قبالے ز آب اول دوم بہ آتش

نہ کھول واعظ کتاب دانش کہ آتش عشق و آب مے سے
دھوؤں جلاؤں ترے رسالے ز آب اول دوم بہ آتش

ستم ہے آفت ہے مہر یا کیں بلا یہ عشق ستیزہ گر کی
دلوں کے خانے اجاڑ ڈالے ز آب اول دوم بہ آتش

پڑے ہیں ہم خون دل میں غلطاں جگر ہے داغ جفا سے سوزاں
کوئی ہے اپنے تئیں سنبھالے ز آب اول دوم بہ آتش

وصال کی جستجو میں حسرتؔ چلا نہ زاری نہ زور کا کچھ
بہت سے یاں ہم نے ڈھب نکالے ز آب اول دوم بہ آتش


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.