وقار شاہ ذوی الاقتدار دیکھ چکے

وقار شاہ ذوی الاقتدار دیکھ چکے
by رند لکھنوی
316659وقار شاہ ذوی الاقتدار دیکھ چکےرند لکھنوی

وقار شاہ ذوی الاقتدار دیکھ چکے
ظہور قدرت پروردگار دیکھ چکے

نقاب کھول کے روئے نگار دیکھ چکے
کچھ ایک بار نہیں لاکھ بار دیکھ چکے

جہاں کے عیش و غم روزگار دیکھ چکے
جو دیکھتا تھا سو پروردگار دیکھ چکے

وہ جیتے جی ہوئے ایذا سے نزع کی آگاہ
جو صدمے تیرے شب انتظار دیکھ چکے

خدا کے واسطے اب چھوڑ جسم خاکی کو
اذیتیں بہت او جان زار دیکھ چکے

جنوں نے خوب دکھائی بہار جیب و کنار
ہوا میں اڑتے ہوئے تار تار دیکھ چکے

وہ قول غیر کو دیتے ہیں لیتے ہیں اقرار
تری طرف کو دل بے قرار دیکھ چکے

یقیں ہے اب نہ کریں میرے قتل میں تاخیر
فساں چٹا کے وہ خنجر کی دھار دیکھ چکے

نہ ڈال پیچ میں خاطر نہ اب پریشاں کر
بہت سے درد سر او زلف یار دیکھ چکے

کرے وہ زینت فتراک یا حلال کرے
کہیں ادھر کو بھی وہ شہسوار دیکھ چکے

نہ پہونچا ایک بھی ذرہ تمہارے دامن تک
اڑا کے خاک بھی ہم خاکسار دیکھ چکے

ہوئے سفید و سیاہ جہان سے واقف
بہت سی گردش لیل و نہار دیکھ چکے

کئے ہیں خوب سے نظارے باغ ہستی کے
جہاں کو بس مرے پروردگار دیکھ چکے

الٰہی تو نے شرف جس کو آسماں پہ دیا
وہ سر زمین بھی یہ خاکسار دیکھ چکے

نہیں ہے ایک میں ہمت یہ وہ زمانہ ہے
غریب دیکھ چکے مال دار دیکھ چکے

تہی ہے نشۂ الفت سے یہ خم گردوں
شرابیں پی کے ترے بادہ خوار دیکھ چکے

کلاہ کج کو ہٹا کر دکھا دیا ابرو
قسم علی کی کھنچی ذو الفقار دیکھ چکے

بھلا وہ خاک کریں قصد بزم ہستی کا
جو لوگ راحت کنج مزار دیکھ چکے

ہوا یقین فرشتوں کو خاکساری کا
کفن لکھا جو یہ خط غبار دیکھ چکے

عمامے باز جو یہ کنٹھے گھٹے والے ہیں
جہاں میں جیسے ہیں ذی اعتبار دیکھ چکے

اٹھائی گیرے ہیں سب جعل ساز ہیں مفسد
کچھ ایک دو نہیں ہم تو ہزار دیکھ چکے

سوائے ذات خدا سب کے واسطے ہے فنا
ثبات ہستئ نا پائیدار دیکھ چکے

قصور بخت ہے پھر جائیں اب اگر محروم
در کریم تو امیدوار دیکھ چکے

ہزار شکر کہ باقی نہیں کوئی حسرت
بہار تیری بھی او گلعذار دیکھ چکے

نجف کو لے گئے میت فرشتہ نقال
عزیز کھول کے میرا مزار دیکھ چکے

فقیر بھی مترصد نگاہ لطف کا ہے
ادھر بھی رندؔ مرا شہریار دیکھ چکے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.