وقت پیری شباب کی باتیں
وقت پیری شباب کی باتیں
ایسی ہیں جیسے خواب کی باتیں
پھر مجھے لے چلا ادھر دیکھو
دل خانہ خراب کی باتیں
واعظا چھوڑ ذکر نعمت خلد
کہہ شراب و کباب کی باتیں
مہ جبیں یاد ہیں کہ بھول گئے
وہ شب ماہتاب کی باتیں
حرف آیا جو آبرو پہ مری
ہیں یہ چشم پرآب کی باتیں
سنتے ہیں اس کو چھیڑ چھیڑ کے ہم
کس مزے سے عتاب کی باتیں
جام مے منہ سے تو لگا اپنے
چھوڑ شرم و حجاب کی باتیں
مجھ کو رسوا کریں گی خوب اے دل
یہ تری اضطراب کی باتیں
جاؤ ہوتا ہے اور بھی خفقاں
سن کے ناصح جناب کی باتیں
قصۂ زلف یار دل کے لیے
ہیں عجب پیچ و تاب کی باتیں
ذکر کیا جوش عشق میں اے ذوقؔ
ہم سے ہوں صبر و تاب کی باتیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |