وہیں تھے شاخ گل پر گل جہاں جمع
وہیں تھے شاخ گل پر گل جہاں جمع
کیے بلبل نے خار آشیاں جمع
لگا دیتا ہے ان کو چن کے آتش
ہما کر کے ہمارے استخواں جمع
چمن میں کس کے آنے کی خبر ہے
کرے ہے پھول چن چن باغباں جمع
ہے صحبت کا پریشانوں کے یہ رنگ
ہوا سے ہوویں جو برگ خزاں جمع
سفر کی مجھ سے کیا کہتے ہو جاؤ
کروں کیا گر ہوا ہے کارواں جمع
ابھی موے پریشاں سے کسی کے
مری خاطر نہیں اے دوستاں جمع
فلک نے سنگ پھینکا تفرقے کا
ہوئے دو چار صاحب دل جہاں جمع
نہ خرچ مصحفیؔ کی پوچھو اس سے
توکل کا ہے مال بے کراں جمع
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |