وہی ضد ان کو ہے وہی ہے ہٹ
وہی ضد ان کو ہے وہی ہے ہٹ
ان کی چاہی نہیں ہے یہ جھنجھٹ
پاؤں کی میرے جو سنی آہٹ
ہوئے داخل مکان میں جھٹ پٹ
شوخ کتنا کیا ہے پیر مغاں
مغبچے ہو گئے بڑ منہ پھٹ
کوئی پہلو نظر نہیں آتا
دیکھیے بیٹھے اونٹ کس کروٹ
یاد کرتے نہیں کبھی وہ ہمیں
نام کی ان کے ہاں لگی ہے رٹ
زیب محفل ہے ماہ رخ میرا
ہر طرف ہے ستاروں کا جھرمٹ
جلوہ گہ میں عجب کرشمہ ہے
یاد کرتے ہی آ گئے جھٹ پٹ
جلوہ فرما وہ گل ہے گلشن میں
ہر روش پر لگے ہوئے ہیں ٹھٹ
ان کو پردے میں بھی حجاب رہا
ہے نمایاں نقاب میں گھونگھٹ
نالۂ دل چراغ روشن ہے
کوہ آتش فشاں کی ہے یہ لپٹ
بادۂ ناب قسمت اغیار
ساقیؔ زار کو ملے تلچھٹ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |