وہی لوگ پھر آنے جانے لگے

وہی لوگ پھر آنے جانے لگے
by نظام رامپوری

وہی لوگ پھر آنے جانے لگے
مرے پاس کیوں آپ آنے لگے

کوئی ایسے سے کیا شکایت کرے
بگڑ کر جو باتیں بنانے لگے

یہ کیا جذب دل کھینچ لایا انہیں
مرے خط مجھے پھر کے آنے لگے

ابھی تو کہا ہی نہیں میں نے کچھ
ابھی تم جو آنکھیں چرانے لگے

ہمارے ہی آگے گلے غیر کے
ہماری ہی طرزیں اڑانے لگے

نہ بن آیا جب ان کو کوئی جواب
تو منہ پھیر کر مسکرانے لگے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse