وہی وعدہ ہے وہی آرزو وہی اپنی عمر تمام ہے

وہی وعدہ ہے وہی آرزو وہی اپنی عمر تمام ہے
by قلق میرٹھی

وہی وعدہ ہے وہی آرزو وہی اپنی عمر تمام ہے
وہی چشم ہے وہی راہ ہے وہی صبح ہے وہی شام ہے

وہی خستہ حال خراب ہے وہی خواب کشتۂ خواب ہے
وہی زندگی کو جواب ہے نہ سلام ہے نہ پیام ہے

وہی جوش نالہ و آہ میں وہی شعلہ جان تباہ میں
وہی برق یاس نگاہ میں جو خیال ہے سو وہ خام ہے

وہی خواب و خور کی تلاش ہے وہی جان و دل میں خراش ہے
وہی رنج غیر معاش ہے مجھے زندگی بھی حرام ہے

وہی ہجر دشمن وصل ہے وہی مرگ و زیست میں فصل ہے
وہی اپنے شغل سے شغل ہے وہی اپنے کام سے کام ہے

وہی شق جگر نہ سیو سیو وہی زیست ہے نہ جیو جیو
وہی خون دل نہ پیو پیو وہی بادہ ہے وہی جام ہے

وہی شوق راہ ہے رہنما وہی جلوہ گاہ ہے رخ کشا
وہی بزم ناز ہے جا بہ جا وہی ہر قدم پہ مقام ہے

وہی نیم جاں دم واپسیں وہی نالہ کش سخن حزیں
وہی یاس زیست ہے دل نشیں کہ زباں پہ آپ کا نام ہے

وہی رنج ہے تو یوں ہی سہی وہ قلقؔ ہی تھا کہ یوں ہی نبھی
مری آپ کو بھی ہے بندگی مرا عشق کو بھی سلام ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse