وہ اٹھے ہیں تیور بدلتے ہوئے

وہ اٹھے ہیں تیور بدلتے ہوئے (1900)
by حبیب موسوی
324738وہ اٹھے ہیں تیور بدلتے ہوئے1900حبیب موسوی

وہ اٹھے ہیں تیور بدلتے ہوئے
چلو دیکھیں تلوار چلتے ہوئے

نہ دیکھا ترے دور میں اے فلک
نہال تمنا کو پھلتے ہوئے

ہیں انگشت حیرت بدنداں مسیح
وہ مردے جلاتے ہیں چلتے ہوئے

چلو مے کدہ محفل وعظ سے
یہ عمامے دیکھو اچھلتے ہوئے

زباں پر ترا نام جب آ گیا
تو گرتے کو دیکھا سنبھلتے ہوئے

محبت میں پائے ہر اک راہ سے
ہزاروں ہی رستے نکلتے ہوئے

ہیں کیا ان کی زلفیں یہ اے دل نہ پوچھ
چھلاوے کو دیکھا ہے چھلتے ہوئے

بنے جزو تن جب چبھے خار غم
یہ کانٹے نہ دیکھے نکلتے ہوئے

کیا کچھ نہ جب تک رہا اختیار
جہاں سے چلے ہاتھ ملتے ہوئے

غم عشق پیدا ہوا میرے ساتھ
اسے گزری اک عمر پلتے ہوئے

رکے کس طرح تیغ ابرو کا وار
سنا ہے اجل کو بھی ٹلتے ہوئے

ان آنکھوں کے فتنوں کا کیا پوچھنا
یہ جادو ہیں لاکھوں میں چلتے ہوئے

نہیں شمع عارض پہ خط جمع ہیں
ہزاروں ہی پروانے جلتے ہوئے

فسانے ہیں مشہور عشاق کے
کٹی عمر فرقت میں جلتے ہوئے

جواں مرتے دیکھے بہت نامراد
سنا ہوگا ارماں نکلتے ہوئے

نہیں کھیل چلنا رہ عشق میں
ذرا پاؤں رکھنا سنبھلتے ہوئے

جو مشہور ثابت قدم تھے حبیبؔ
انہیں ہم نے دیکھا پھسلتے ہوئے


This work was published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 100 years or less since publication.