وہ ایسے بگڑے ہوئے ہیں کئی مہینے سے
وہ ایسے بگڑے ہوئے ہیں کئی مہینے سے
کہ جاں پہ بن گئی تنگ آ گیا میں جینے سے
ہوئے نمود جو پستاں تو شرم کھا کے کہا
یہ کیا بلا ہے جو اٹھتی ہے میرے سینے سے
وہ دور کھنچ کے شب وصل اس کا یہ کہنا
کوئی ادھر ہی کو بیٹھا رہے قرینے سے
جو بوسہ دیتے ہیں تو لب بچاتے ہیں لب سے
لپٹتے بھی ہیں تو سینہ چرا کے سینے سے
وہ ساتھ سونا کسی کا وہ گرم جوشی ہائے
نمی وہ جسم کی چولی وہ تر پسینے سے
خوشی یہی ہے کہ اک دن تو غم سے چھوٹیں گے
نہ موت آئے تو کیا حاصل ایسے جینے سے
وہ نیچی نیچی نگاہوں سے دیکھنا مجھ کو
وہ پیار تکیے کو کرنا لگا کے سینے سے
یہی وہ راہ ہے جو دل سے دل کو ہوتی ہے
حصول کون سا چاک جگر کے سینے سے
میں اور کچھ نہیں کہتا مگر یہ سن رکھئے
عدو کا دل ہے لبالب حسد سے کینے سے
خدا کی شان ہے یہ بات اور منہ ان کا
نظامؔ پھر کروں توبہ شراب پینے سے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |