وہ بیکلی نہیں دل کو وہ اضطراب نہیں
وہ بیکلی نہیں دل کو وہ اضطراب نہیں
تمہارے ہجر کا اب کچھ مجھے عتاب نہیں
جلا بھنا ہوں مجھے خواہش کباب نہیں
پلا دے دھو کے سبو ہی اگر شراب نہیں
سنا ہے ہم نے کہ عارض پہ ہے غبار سا کچھ
بلا سے خط کا ہمارے اگر جواب نہیں
تری خبر کے لئے دیکھتے ہیں سب اخبار
مطالعہ میں کسی کے کوئی کتاب نہیں
رسیدہ بود بلائے ولے بخیر گزشت
تمہاری زلف سے خاطر کو پیچ و تاب نہیں
پلانا تول کے بادۂ مغاں خدا کے لئے
یہ دن شرف کے ہیں میزاں میں آفتاب نہیں
فرار کیوں نہ ہو ہر روز جاں نثار اک ایک
حضور آپ کی وہ دولت شباب نہیں
تمہارے زلف کی تصویر کیا کرے سیراب
خطا معاف ہو ہم تشنۂ سراب نہیں
نسیمؔ پی گئے اب مے کدوں میں ہے کیا خاک
دوا کے واسطے لندن میں بھی شراب نہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |