وہ در تلک آوے نہ کبھی بات کی ٹھہرے
وہ در تلک آوے نہ کبھی بات کی ٹھہرے
حیراں ہوں میں کس طرح ملاقات کی ٹھہرے
ہر روز کا ملنا ہے جو دشوار تو پیارے
اتنا تو کرو قصد کہ اک رات کی ٹھہرے
جس وقت کہ ہم آئیں تو یہ چاہئے تم کو
اوروں سے نہ پھر حرف و حکایات کی ٹھہرے
اے دیدۂ تر تم بھی جھڑی اپنی لگا دو
اس سال تو برسات میں برسات کی ٹھہرے
کس چیز پہ پھر ہم ہوں گفتار تعین
دن رات کی ٹھہرے ہے نہ اوقات کی ٹھہرے
جب کاٹ کے دل پیر گئی ہووے جگر میں
پھر کیوں نہ چھری آپ کی اس بات کی ٹھہرے
ہر روز یہ چاہے ہے تری چشم کی گردش
اس مرکز خاکی پہ کچھ آفات کی ٹھہرے
اے مصحفیؔ اس وقت وہ مہماں ہے تمہارے
ہے گھات کی جاگہ تو، اگر گھات کی ٹھہرے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |