وہ دیکھتے جاتے ہیں کنکھیوں سے ادھر بھی

وہ دیکھتے جاتے ہیں کنکھیوں سے ادھر بھی
by بیخود دہلوی
318819وہ دیکھتے جاتے ہیں کنکھیوں سے ادھر بھیبیخود دہلوی

وہ دیکھتے جاتے ہیں کنکھیوں سے ادھر بھی
چلتا ہوا جادو ہے محبت کی نظر بھی

اٹھنے کی نہیں دیکھیے شمشیر نظر بھی
پہلے ہی لچکتی ہے کلائی بھی کمر بھی

پھوٹیں مری آنکھیں جو کچھ آتا ہو نظر بھی
دنیا سے الگ چیز ہے فرقت کی سحر بھی

ساقی کبھی مل جائے محبت کا ثمر بھی
ان آنکھوں کا صدقہ کوئی ساغر تو ادھر بھی

بیتاب ہوں کیا چیز چرا لی ہے نظر نے
ہونے کو تو دل بھی ہے مرے پاس جگر بھی

گھر سمجھا ہوں جس کو کہیں تربت تو نہیں ہے
آتی ہے یہاں شام کی صورت میں سحر بھی

خاموش ہوں میں اور وہ کچھ پوچھ رہے ہیں
ماتھے پہ شکن بھی ہے عنایت کی نظر بھی

اس کے لب رنگیں کی نزاکت ہے نہ رنگت
غنچے بھی بہت دیکھ لیے ہیں، گل تر بھی

آتی ہے نظر دور ہی سے حسن کی خوبی
کچھ اور ہی ہوتی ہے جوانی کی نظر بھی

ہٹتی ہے جو آئینہ سے پڑ جاتی ہے دل پر
کیا شوخ نظر ہے کہ ادھر بھی ہے ادھر بھی

بیمار محبت کا خدا ہے جو سنبھل جائے
ہے شام بھی مخدوش جدائی کی سحر بھی

مے خانۂ عشرت نہ سہی کنج غریباں
آنکھوں کے چھلکتے ہوئے ساغر ہیں ادھر بھی

مل جائیں اگر مجھ کو تو میں خضر سے پوچھوں
دیکھی ہے کہیں شام جدائی کی سحر بھی

اے شوق شہادت کہیں قسمت نہ پلٹ جائے
باندھی تو ہے تلوار بھی قاتل نے کمر بھی

اے دل تری آہیں تو سنیں کانوں سے ہم نے
اب یہ تو بتا اس پہ کریں گی یہ اثر بھی

اک رشک کا پہلو تو ہے سمجھوں کہ نہ سمجھوں
گردن بھی ہے خم آپ کی نیچی ہے نظر بھی

کچھ کان میں کل آپ نے ارشاد کیا تھا
مشتاق اسی بات کا ہوں بار دگر بھی

سوفار بھی رنگین کئے ہاتھ بھی اس نے
آیا ہے بڑے کام میرا خون جگر بھی

چھپتی ہے کوئی بات چھپائے سے سر بزم
اڑتے ہو جو تم ہم سے تو اڑتی ہے خبر بھی

یوں ہجر میں برسوں کبھی لگتی ہی نہیں آنکھ
سو جاتا ہوں جب آ کے وہ کہہ دیتی ہیں مر بھی

کھلتا ہی نہیں بیخودؔ بدنام کا کچھ حال
کہتے ہیں فرشتہ بھی اسے لوگ بشر بھی


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.