وہ سن کر حور کی تعریف پردے سے نکل آئے

وہ سن کر حور کی تعریف پردے سے نکل آئے
by بیخود دہلوی

وہ سن کر حور کی تعریف پردے سے نکل آئے
کہا پھر مسکرا کر حسن زیبا اس کو کہتے ہیں

اجل کا نام دشمن دوسرے معنی میں لیتا ہے
تمہارے چاہنے والے تمنا اس کو کہتے ہیں

مرے مدفن پہ کیوں روتے ہو عاشق مر نہیں سکتا
یہ مر جانا نہیں ہے صبر آنا اس کو کہتے ہیں

نمک بھر کر مرے زخموں میں تم کیا مسکراتے ہو
مرے زخموں کو دیکھو مسکرانا اس کو کہتے ہیں

زمانے سے عداوت کا سبب تھی دوستی جن کی
اب ان کو دشمنی ہے ہم سے دنیا اس کو کہتے ہیں

دکھاتے ہم نہ آئینہ تو یہ کیوں کر نظر آتا
بشر حوروں سے اچھا تم نے دیکھا اس کو کہتے ہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse