وہ قضا کے رنج میں جان دیں کہ نماز جن کی قضا ہوئی

وہ قضا کے رنج میں جان دیں کہ نماز جن کی قضا ہوئی
by مضطر خیرآبادی

وہ قضا کے رنج میں جان دیں کہ نماز جن کی قضا ہوئی
ترے مست بادۂ شوق نے نہ کبھی پڑھی نہ ادا ہوئی

ترے دور دورۂ عشق میں مری ایک رنگ سے کٹ گئی
نہ ستم ہوا نہ کرم ہوا نہ جفا ہوئی نہ وفا ہوئی

مجھے غیر عجز و نیاز نے ترے در پہ جا کے جھکا دیا
نہ تو کوئی عہد لکھا گیا نہ تو کوئی رسم ادا ہوئی

مرا دل بھی تھا مری جاں بھی تھی نہ وہی رہا نہ یہی رہی
مجھے کیا خبر کہ وہ کیا ہوا مجھے کیا خبر کہ یہ کیا ہوئی

مری عمر مضطرؔ خستہ دل کٹی رنج و درد و فراق میں
نہ کسی سے میری دوا ہوئی نہ دوا سے مجھ کو شفا ہوئی

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse