وہ لے کے دل کو یہ سوچی کہیں جگر بھی ہے

وہ لے کے دل کو یہ سوچی کہیں جگر بھی ہے
by شوق قدوائی

وہ لے کے دل کو یہ سوچی کہیں جگر بھی ہے
نظر ٹٹول رہی ہے کہ کچھ ادھر بھی ہے

ہنسو نہ کھول کے زلفیں بلا نصیبوں پر
بلا نصیب جہاں میں تمہارا سر بھی ہے

وہ بگڑے سن کے مگر سن تو لی ہماری آہ
یہ بے اثر ہی نہیں بلکہ با اثر بھی ہے

جنون کو وہ بناوٹ سمجھ رہا ہے ابھی
یہ سن لیا ہے کسی سے کہ میرے گھر بھی ہے

فراق میں یہ نیا تجربہ ہوا مجھ کو
کہ ایک رات زمانے میں بے سحر بھی ہے

یہ کہہ کے حشر سے بھاگا میں اپنا جی لے کر
الٰہی خیر یہاں تو وہ فتنہ گر بھی ہے

مجھے تو آپ میں اس وقت تم نہیں ملتے
کہاں ہو شوقؔ کچھ اپنی تمہیں خبر بھی ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse