وہ مقتل میں اگر کھینچے ہوئے تلوار بیٹھے ہیں
وہ مقتل میں اگر کھینچے ہوئے تلوار بیٹھے ہیں
تو ہم بھی جان دینے کے لئے تیار بیٹھے ہیں
در پیر مغاں پر اس طرح مے خوار بیٹھے ہیں
کہ کچھ مخمور بیٹھے ہیں تو کچھ سرشار بیٹھے ہیں
اگر وہ گالیاں دینے پر آمادہ ہیں خلوت میں
تو ہم بھی عرض مطلب کے لیے تیار بیٹھے ہیں
گلا میں کاٹ لوں خود اک اشارہ ہو جو ابرو کا
وہ کیوں میرے لیے کھینچے ہوئے تلوار بیٹھے ہیں
سہارا جب دیا ہے کچھ امید وصل نے آ کر
تو اٹھ کر بستر غم سے ترے بیمار بیٹھے ہیں
حجاب ان سے وہ میرا پوچھنا سر رکھ کے قدموں پر
سبب کیا ہے جو یوں مجھ سے خفا سرکار بیٹھے ہیں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |