وہ نازنیں ادا میں اعجاز ہے سراپا
وہ نازنیں ادا میں اعجاز ہے سراپا
خوبی میں گل رخاں سوں ممتاز ہے سراپا
اے شوخ تجھ نین میں دیکھا نگاہ کر کر
عاشق کے مارنے کا انداز ہے سراپا
جگ کے ادا شناساں ہے جن کی فکر عالی
تجھ قد کوں دیکھ بولے یو ناز ہے سراپا
کیوں ہو سکیں جگت کے دل بر ترے برابر
تو حسن ہور ادا میں اعجاز ہے سراپا
گاہے اے عیسوی دم یک بات لطف سوں کر
جاں بخش مجھ کو تیرا آواز ہے سراپا
مجھ پر ولیؔ ہمیشہ دل دار مہرباں ہے
ہر چند حسب ظاہر طناز ہے سراپا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |