وہ نہیں ہوں میں کہ جس پر کوئی اشک بار ہوتا

وہ نہیں ہوں میں کہ جس پر کوئی اشک بار ہوتا
by ثاقب لکھنوی

وہ نہیں ہوں میں کہ جس پر کوئی اشک بار ہوتا
کبھی شمع بھی نہ روتی جو مرا مزار ہوتا

شب غم میں زندگی کا کسے اعتبار ہوتا
مری جان جا چکی تھی جو نہ انتظار ہوتا

مری داستان غم کو وہ غلط سمجھ رہے ہیں
کچھ انہیں کی بات بنتی اگر اعتبار ہوتا

یہی سوز عشق جس کو میں ہمیشہ راز سمجھا
جو حجاب دل نہ جلتا تو نہ آشکار ہوتا

میں شکایت زمانہ جو کروں تو کیا سمجھ کر
نہ یہ دور چرخ ہوتا نہ یہ روزگار ہوتا

دل پارہ پارہ تجھ کو کوئی یوں تو دفن کرتا
وہ جدھر نگاہ کرتے ادھر اک مزار ہوتا

مئے عشق جوش زن ہے یہ لہو نہیں رگوں میں
مرا نشہ کیوں اترتا مجھے کیوں خمار ہوتا

مرے دل نے بڑھ کے روکا ترے تیر جاں فشاں کو
جو یہ بیچ میں نہ پڑتا تو جگر کے پار ہوتا

وہ لحد پہ ان کا آنا وہ قدم قدم پہ محشر
مری نیند کیوں اچٹتی اگر ایک بار ہوتا

شب ہجر بعد میرے اگر اس جہاں میں رہتی
تو یہی سیاہ دفتر مرا یادگار ہوتا

جو ہمارے دیکھنے کو کبھی آپ آ نکلتے
وہی آنکھ در پہ ہوتی وہی انتظار ہوتا

وہ شباب کے فسانے جو میں سن رہا ہوں دل سے
اگر اور کوئی کہتا تو نہ اعتبار ہوتا

یہ زمانہ بڑھ رہا ہے فقط اضطراب دل سے
شب غم نہ یوں ٹھہرتی جو مجھے قرار ہوتا

وہ جہاں میں آگ لگتی کہ بجھائے سے نہ بجھتی
مرے دود دل میں ثاقبؔ جو کوئی شرار ہوتا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse