وہ پوچھتے ہیں ہجر میں ہے اضطراب کیا
وہ پوچھتے ہیں ہجر میں ہے اضطراب کیا
حیران ہوں کہ دوں انہیں اس کا جواب کیا
دل اور وہ بھی صرف مرا دردمند دل
تیری نگاہ نے یہ کیا انتخاب کیا
جاتی نہیں خلش الم روزگار کی
اے آسماں ہوا وہ ترا انقلاب کیا
نظارۂ جمال کی یاں تاب ہی نہیں
اے برق حسن چاہیئے تجھ کو نقاب کیا
وعدہ بھی کر لو وعدہ پہ یاں آ بھی جاؤ تم
یہ سب سہی تمہاری نہیں کا جواب کیا
بیش از گمان خواب نہیں فرصت حیات
فانیؔ تم اس خیال کو سمجھے ہو خواب کیا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |