وہ پوچھتے ہیں ہجر میں ہے اضطراب کیا

وہ پوچھتے ہیں ہجر میں ہے اضطراب کیا
by فانی بدایونی
299763وہ پوچھتے ہیں ہجر میں ہے اضطراب کیافانی بدایونی

وہ پوچھتے ہیں ہجر میں ہے اضطراب کیا
حیران ہوں کہ دوں انہیں اس کا جواب کیا

دل اور وہ بھی صرف مرا دردمند دل
تیری نگاہ نے یہ کیا انتخاب کیا

جاتی نہیں خلش الم روزگار کی
اے آسماں ہوا وہ ترا انقلاب کیا

نظارۂ جمال کی یاں تاب ہی نہیں
اے برق حسن چاہیئے تجھ کو نقاب کیا

وعدہ بھی کر لو وعدہ پہ یاں آ بھی جاؤ تم
یہ سب سہی تمہاری نہیں کا جواب کیا

بیش از گمان خواب نہیں فرصت حیات
فانیؔ تم اس خیال کو سمجھے ہو خواب کیا


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.