ٹھوکریں کھلوائیں کیا کیا پائے بے زنجیر نے
ٹھوکریں کھلوائیں کیا کیا پائے بے زنجیر نے
گردش تقدیر نے جولانی تدبیر نے
عالم اسباب سے کیا فیض ناکامی ملا
راہ پر لا کر مجھے بھٹکا دیا تقدیر نے
کارواں کتنے بگولے بن کے غائب ہو گئے
خاک سے یکساں کیا جولاں گہ تدبیر نے
باز آئے زندگی کے خواب رنگا رنگ سے
دست و پا گم کر دئیے اندیشۂ تعبیر نے
داد خواہی کو اٹھا ہے ذرۂ پامال تک
سوتے فتنوں کو جگایا حشر عالم گیر نے
ماتم حسرت کیا پہلے گریباں پھاڑ کر
پھر دعا دی دشمنوں کو دست بے شمشیر نے
جان دے کر ایک حکم آخری مانا تو کیا
لکھ دیا جب سرکشوں میں کاتب تقدیر نے
واہ کیا کہنا مجسم کر دیا موہوم کو
نقش بندان ازل کی شوخی تحریر نے
جم گئی گرد فنا ایسی کہ چھٹنے کی نہیں
کس غضب کا رنگ پکڑا یاسؔ کی تصویر نے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |